Writer is Chief Visionary Officer of World’s First Smart Thinking Tank ”Beyond The Horizon” and most diverse professional of Pakistan. See writer’s profile at http://beyondthehorizon.com.pk/about/ and can be contacted at “pakistan.bth@gmail.com”



ناکامیوں کی قبل از وقت پیش بینی ممکن ہے


احمد جواد


اپنے مقا م سے گرنے کے دیر بعد ناکامی کا سامنا ہوتا ہے۔ صرف زلزلوں کا وقت سے پہلے تعین نہیں کیا جاسکتا لیکن ناکامیوں کا وقت سے پہلے ادراک کیا جا سکتا ہے۔


دھرنا، پانامہ، نواز شریف کی نااہلی، مسلم لیگ نواز کے اندرونی اختلافات، مسلم لیگ نواز کے سپریم کورٹ اور فوج سے بڑھتے ہوئے اختلافات کے معاملات میں پاکستان تحریک انصاف کے لئے فائدہ اٹھانے کے بہت سے مواقع موجود تھے۔ ہر موقع پر عمران خان صف اوّل میں مصروف عمل تھے مگر ان کی باقی قیادت ان سے بہت پیچھے نہ صرف گھسٹ رہی تھی بلکہ ان میں سے بہت سے اس جدوجہد کا ثمر سمیٹنے میں مصروف تھے۔ ہر ہلّے اور ہر معرکے میں نواز شریف کےجھلکتے انجام سےتحریک انصاف کا اعتماد ضرورت سے بڑھ جاتا اور اس کے صورت حال کے بارے لگائے گئےاندازے مبالغے اور خوش فہمی ثابت ہوتے۔ لگتا ہے وہی وقت غنیمت تھا جب اس طرح کے مواقع سے فائدہ اٹھایا جا سکتا تھامگر یہی معلوم نہ تھا کہ ان فوائد کو حقیقت میں اگلے انتخابات کی جیت میں کس طرح ڈھالا جائے۔


خیبر پختونخوا میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کی کارکردگی دیگر صوبائی حکومتوں اور خیبر پختونخوا کی سابقہ حکومتوں سے بہت بہتر تھی مگر اس قدر نہیں کہ اس طرز حکمرانی کو بے مثال نمونہ سمجھا جائے۔ اس پر طرہ یہ کہ پچھلے تین سالوں میں خیبر پختونخوا کی حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کی میڈیا ٹیم لوگوں بالخصوص خیبر پختونخوا کے باہر کو لوگوں کو خیبر پختونخوا حکومت کی حقیقی کامیابیوں سے آشکار کرنے میں بری طرح ناکام ہوئیں۔ اس کو مجرمانہ غفلت کا نام دیا جا سکتا ہے۔


یہ تو ایسے ہی ہےجیسےخیبر پختونخوا حکومت کی 80%کارکردگی صرف 20%ظاہر کر کےدکھائی جائے۔


جبکہ پنجاب حکومت کی صرف 20%کارکرگی کو 80%بنا کر ظاہر کیا جا رہا ہے۔


نمائش کے چند مواقع، اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر تھوڑے سے اشتہارات کو خیبر پختونخوا حکومت کی بہتر کارکردگی سے آگاہی کے لئے کافی سمجھا گیا۔


میں پاکستان تحریک انصاف کی ایک سنٹرل میڈیا میٹنگ میں موجود تھا ۔مجھے اس وقت شدید جھٹکا لگا جب خیبر پختونخوا حکومت کی اچھی کارکردگی کو آشکار کرنے میں پائی گئی کوتاہیوں کی وجوہات کے بارے بتایاگیا۔ زیادہ تر کوتاہیوں کا الزام پارٹی کے سنٹرل میڈیا سیل سے رابطہ نہ رکھنےپر خیبر پختونخوا حکومت کو دیا گیا۔مجھے یوں لگا جیسے پنگ پانگ کی طرح خیبر پختونخوا حکومت اورپی ٹی آئی سنٹرل میڈیا سیل فرائض نبھانے میں ناکامی کا باعث ایک دوسرے کو قرار دے رہے ہیں۔


فرض کریں اپنی کامیابیوں کا شہرہ لوگوں تک پہنچانے میں خیبر پختونخوا حکومت سے کوتاہی ہوئی مگر پی ٹی آئی کا مرکزی میڈیا سیل یہ کام کر دکھانے میں کیوں نا کام رہا۔ اگر سوشل میڈیا سیل پر جُتا ہوا ایک رضا کار تن تنہا خیبر پختونخوا حکومت کے کارنامے نشر کر سکتا ہے تو وسائل سے مالامال پی ٹی آئی کا مرکزی میڈیا سیل جس پر بھاری سرمایہ کاری کی گئی ہے یہ کام کیوں نہیں سر انجام دے سکتا۔


طرز فکر اور طرز بیان وضع کرنے کے لئے سوجھ بوجھ کا مکمل فقدان پایا گیا۔ ان کی تیاری کے لئے پی ٹی آئی سنٹرل میڈیا سیل میں روایتی اور بوسیدہ طریقے بروئے کار لائے گئے۔اس پرمزید بد قسمتی یہ کہ انہیں اس طرح پیش کیا گیا گویا یہ کوئی چوٹی کی میڈیا حکمت عملی ہو۔ حالانکہ یہ مکمل طور پر جعلسازی، نااہلی اور غفلت کا ملغوبہ تھا۔


اُس وقت پی ٹی آئی کے کلیدی عوامل دھرنا اور پانامہ کی لہروں کے دوش پر سوار تھے جو بظاہر آسان کام تھا جب کہ یہی وقت تھا کہ ان واقعات سے پیدا ہونے والے خلا کر پُر کرنے کے لئے منصوبہ بندی کر لی جاتی۔


اگر دھرنے اور پانامہ کے ہنگام کے وقت پی ٹی آئی کا مرکزی میڈیا سیل بوجوہ بند بھی ہوجاتا تو قومی میڈیا پی ٹی آئی کے موقف کو اُسی شد و مد سے اختیار کرتا۔مزے کی بات یہ کہ میڈیا کےاس وطیرے کا فائدہ بھی مرکزی میڈیا سیل نے اپنی جھولی میں ڈال لیا حالانکہ اس کا دور دور تک اس کی قابلیت سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ میڈیا خود تجارتی طور پر معاشرے کی پرجوش، ولولہ انگیز اور مقبول عام سوچوں کے قدرتی بہاؤکے ساتھ چل رہا تھا۔


کوئی بھی پوچھ سکتا ہےکہ مہینہ بھر تک میڈیا پر بلا شرکت غیرے خادم حسین رضوی کے تسلط کے پیچھے کون سا میڈیا سیل کار فرما تھا۔ اگر وہاں کوئی پی ٹی آئی کے مرکزی میڈیا سیل جیسا میڈیا سیل ہوتا تو خادم حسین رضوی کی میڈیا شورش کا با آسانی کریڈٹ لے سکتا تھا۔


حال ہی میں خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نےاعلان کیا ہے کہ جلد ہی ایک زبردست قسم کی میڈیا مہم چلائے جائے گی۔میرا سوال یہ ہے کہ یہ کس قسم کی حکمت عملی ہے؟ اگر اس حکمت عملی کا مقصد اخبارات اور الیکٹرانک میڈیا پر اشتہارات چلانا ہے تو اس کا فائدہ اشتہاری کمپنیوں اور ان کے سرپرستوں کو تو ہو سکتا ہے مگر اس سے پاکستان تحریک انصاف کو کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔بصورت دیگر 2013ء کے انتخابات کے دوران چلائی جانے والی مہنگی ترین میڈیاانتخابی مہم کو یاد کریں کے۔ کیا اُس مہنگی مہم سے ہمیں کوئی فائدہ ہوا تھا؟ ہمیں آج کے ڈیجیٹل دور میں تخلیقی صلاحیتوں اور جدتوں کو سیکھنا ہوگا۔


کوئی بیانیہ وضع کرنا ایسا ہی تخلیقی عمل ہے جیسے کسی ڈیم میں پانی بھرا جائے اور پھر اُس میں سے نہریں نکال کر اس پانی سے دور دراز علاقوں کو سیراب کیا جائے۔


موقف سے مراد یہی ہے کہ پانی کے ذخیرے سے شعور اور آگاہی کے سوتے نکال کر انہیں عوام الناس تک پہنچا جائے۔


اگر ہم پانی کے ذخیرے سے پانی کی ٹینکیوں اور باؤزروں سے پانی سپلائی کر کے سمجھتے ہیں کہ ہم نے ہر ضرورت مند تک پانی پہنچا دیا تو یہ ہماری غلط فہمی ہے۔ ٹینکیوں کے ذریعے پانی سپلائی کرنے سے آگ تو بجھائی جا سکتی ہے مگر عام انسانوں کی پانی کی ضروریات کو پورا نہیں کیا جا سکتا۔


کیا ہم نے 2013ء کے انتخابات سے کوئی سبق حاصل کیا؟ اس سلسلے میں مجھے شدید شبہات لاحق ہیں۔


سیاسی جماعتوں میں ایک ایسی سیاسی نسل جنم لے چکی ہے جو خوب تالیاں پیٹتی ہے، جو خود کو بہت نمایاں رکھتی ہے، ہر دم آپ کی تعریفوں کے پُل باندھتی ہے، اُسے دوسروں کی کامیابیوں کا سہرا اپنے سر سجانے کا ملکہ حاصل ہے، جو دوسروں کے کارناموں کو اپنا کہہ کر مزے لیتی ہے اور سب سے اہم یہ کہ اُس کے پاس خود کو نمایاں طور پر دکھائی دینے کے لئے ڈھیروں وقت میسر ہے۔سیاسی پارٹیا ں اس طرح کے لوگوں کوہجوم کے طور استعمال کر سکتی ہیں جو ضروری ہوتا ہے مگر اس نسل کے لوگوں کو حکمت عملی بنانے والے ایوانوں میں عمل دخل سے باز رکھنا چاہئے۔اگر اس طرح کے لوگوں کی رسائی تدبیر سازی کی میٹنگوں تک ہوگی تو حکمت عملی تہس نہس ہو جائے گی۔


مجھے قوی امید ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز میں اس قبیل کے طلال چوہدری، دانیال عزیز اور عابد شیر علی جیسے لوگوں کی موجودگی سے پاکستان تحریک انصاف اپنی کوتاہیوں پر قابو پا لے گی۔میری شدید خواہش ہے کہ پاکستان مسلم لیگ نواز میں اس طرح کے کردارقیادت کرتے رہیں تاکہ پاکستان مسلم لیگ نواز کا مطلوبہ زوال یقینی ہو جائے۔


خیبر پختونخوا حکومت کی کامیابیوں کی عوامی سطح تک پذیرائی کی ذمہ داری کس کو سونپی گئی تھی اور اس میں تساہل کس نے برتا؟ اس سوال کا آج تک جواب نہیں دیا گیا۔


کیا خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات یا وزیر اعلیٰ یا مرکزی میڈیا سیل کے سربراہ خیبر پختونخوا حکومت کی اعلیٰ کارکردگی کو عوام تک پہنچانے میں اپنی ناکامی کا اعتراف کریں گے؟ اگر نہیں تو ڈھیٹ پن اور کور چشمی کو تو کوئی علاج نہیں۔


اقوام متحدہ، ورلڈ اکنامک فورم سمیت دنیا کے تمام ماحول دوست اداروں نے خیبر پختونخوا کے بلین ٹری پراجیکٹ کو سراہا اور اسے ماحول کو بہتر بنانے والی دنیا کی دس بڑی کامیاب داستانوں میں شامل کیا۔ لیکن تصور کیجئے کہ عمران خان ایک ارب درخت لگانے کے اس منصوبے کے خلاف پھیلائی جانے والی منفی مہم کے باعث آج تک اس منصوبے کا دفاع کرنے پر مجبور ہیں۔کیا اس بات کو پی ٹی آئی کی میڈیا پالیسی کی ناکامی کا منہ بولتا ثبوت نہیں کہا جا سکتا؟


کیا اس کو پی ٹی آئی کی میڈیا حکمت عملی چلانے والے لوگوں کا غلط انتخاب نہیں کہا جائے گا؟


حکمت عملی کا آغاز اس کی ذمہ داری قبول کرنے سے ہوتا ہے۔کسی بھی کام کو سر انجام دینے کے لئے کئی امیدوار اپنی خدمات پیش کرتے ہیں مگر حکمت عملی کو رو بہ عمل لانے اور اس کے نتائج کی ذمہ داری کوئی قبول نہیں کرتا۔


ہم یقینی طور پر آہستہ آہستہ تنزلی کی طرف کھسکتے جا رہے ہیں۔ چکوال اور لودھراں کے ضمنی انتخاب نے خطرے کی گھنٹیا ں بجا دی ہیں۔


مشاہد حسین بہت محتاط سیاسی موقع پرست اور ماہر نبض شناس ہیں جنہوں نے حال ہی میں پاکستان مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کی ہے۔ یہ محض ایک اتفاق نہیں بلکہ سوچی سمجھی چال کا حصہ ہے۔


سپریم کورٹ نے پانامہ کیس کا فیصلہ کرنے کے لئے چھ ماہ کا وقت دیا تھا جو بالواسطہ طور پر پاکستان مسلم لیگ کے مسخ شدہ موقف کو نئی زندگی دینے کے مترادف ہے۔ عدالتوں میں ہر پیشی کے بعد شریف خاندان تقویت حاصل کرلیتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ اس سے شریف خاندان کو مظلومیت کا شکار ثابت کیا جا رہا ہے۔ اگر ان کو جیلوں میں بند کر دیا گیا تووہ اس کا فائدہ اگلے انتخابات میں اٹھائیں گے۔


مجھے کیوں نکالا کا موقف جو ان کے لئے باعث شرمندگی تھا وہ آہستہ آہستہ ان کی انتخابات جیتنے کی حکمت عملی بنتا جا رہا ہے۔ بکاؤ میڈیا اس کے خدو خال سنوارنے کے لئے تیاری کر رہا ہے۔


ہماری تمام تر میڈیا پالیسی کا انحصار سوشل میڈیا کے کچھ رضاکاروں اور ٹی وی ٹاک شوز میں اچھی گفتگو کرنے والےپی ٹی آئی کے چندشرکاء پر ہے۔


پانامہ کیس میں اگر نواز شریف کو جیل ہو جاتی ہے تو اس سے ہم اگلے انتخابات نہیں جیت سکیں گے۔ ہماری جیت کا دار و مدار اس بات پر ہوگا کہ ہم اپنی انتخابی مہم کس مہارت سے چلاتے ہیں۔


ہمارا مقابلہ انتخابات سے پہلے ممکنہ طور پر پاکستان مسلم لیگ نواز، جمعیت علمائے اسلام فضل الرحمٰن، متحدہ قوم موومنٹ، عوامی نیشنل پارٹی اور اچکزئی کے درمیان بننے والے اتحاد سے ہوگا۔ کیا ہم اس کےلئے تیار ہوں گے


ان مسائل کے حل موجود ہیں بشرطیکہ خطرات اور خدشات کو شناخت کریں اور سب سے بڑھ کر یہ کہااپنی کمزوریوں کا ہم کو پتہ ہو۔


سیاست کی مثال کرکٹ کے ٹیسٹ میچ کی طرح ہے جس میں چند اووروں میں چوکے چھکے لگا کر میچ نہیں جیتا جا سکتا۔ اس کے لئے حکمت عملی پانچ دنوں پر محیط ہونی چاہئے۔ اسی طرح انتخابات کی حکمت عملی بھی پانچ سال پر محیط ہوتی ہے۔ مگر ہمارے پاس تو صرف پانچ ماہ باقی بچے ہیں۔جو کچھ ہم نے پانچ سال میں کرنا تھا اب پانچ ماہ میں کرنا ہوگا۔


پاکستان تحریک انصاف کے سینکڑوں ہزاروں مداح ہیں جوسوشل میڈیا پرلکھتے ہیں اور پارٹی کے موقف کوترویج دیتے ہیں۔کیا ہم نے کبھی کوشش کی کہ ان کا کھوج لگایا جائے، ان کی حوصلہ افزائی کی جائے، انہیں اپنے ساتھ منسلک کیا جائے اور ان کی خدمات کا اعتراف کیا جائے؟ یہ کس کا کام تھا؟اس کا مطلب یہ ہے کہ آپ کو چاہئے تھا کہ گلیوں اور بازاروں میں جو رضاکار بر سر پیکار ہیں ان کو ایک فوج میں مجتمع کیا جاتا تاکہ ایک حکمت عملی کے مطابق جنگ لڑی جائے۔مگر یہ ہو نہ سکا اور اب یہ عالم ہے کہ ان رضاکاروں کی کوششوں کا ثمرغیر واجبی طور پر توڑ کر لوگ اپنے تاج میں سجا کر پیش کرتے ہیں ۔


میں حال ہی میں سوشل میڈیا پر مریم شریف کی جانب سے شروع کئے جانے والے کام کا اعتراف کرتا ہوں جو مسلم لیگ نواز کا کوئی دوسرا لیڈر نہیں کر سکتا تھا۔ میرا خیال ہے انہوں نے کچھ صحیح قسم کے مشیروں کا انتخاب کیا ہے۔ ایک لیڈر کا کام ہی یہی ہے کہ بہتر مشیروں کا انتخاب کیا جائے باقی تو سب خود کار عمل کا حصہ ہے۔


سوشل میڈیا ہماری سب سے مضبوط قوت تھی مگر ہم نے اس کو بلا مقصد اور بغیر کسی پالیسی کے چلنے دیا۔


ہم تو میڈیا اور سوشل میڈیا پر فائر فائٹنگ کی پالیسی کے مطابق عارضی طور پر آگ کے بجھ جانے کے منتظر تھے۔ہمیں یہ احساس نہیں تھا کہ آگ بجھ جانے کے بعد باقی راکھ رہ جاتی ہے۔یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم فخریہ طور پر اپنے فائر فائٹر ہونے کا اعلان کریں یا کہیں کہ ہمیں آگ لگنے کی وجوہات کا سراغ لگانا ہے اورمستقبل میں آگ کو لگنے نہیں دینا۔یاد رکھئے کہ فائر فائٹروں پر دارومدار رکھنے والے ادارے اور قومیں ہمیشہ خسارے میں رہتی ہیں۔


اگر 2018ء میں پاکستان تحریک انصاف ناکام ہو جاتی ہے تو یہ قوم کی ناکامی ہوگی کیونکہ اس سے بہتر موقع اس کو پھر نہیں ملیں گے۔


یہی موقع ہے کہ آگ بجھانے والوں کو تلاش کیا جائے، انہیں فائر سٹیشنوں کی جانب روانہ کیا جائے اور وہاں رکھا جائے۔


یہی موقع ہے کہ ہم اپنی میڈیا پالیسی کا جائزہ لیں، انتخابات کی حکمت عملی بنائیں اور اس پر نظر ثانی کریں۔یہ موقع ہے کہ سوشل میڈیا کو اپنی جیت کا ہتھیار بنا کر استعمال کریں۔انتہائی ضروری بات یہ ہے کہ اس موقع پر خیبر پختونخوا میں اپنی کامیابیوں کو غیر روایتی انداز میں پیش کریں۔ یہ موقع مرکزی میڈیا ٹیم پر نظر ثانی کرنے کا ہے۔


گذشتہ ایک سال میں پہلی بار میں نے نواز شریف اور مریم نواز کے چہروں پر اعتماد، مسکراہٹ اور خوشیوں کو جھلکتے دیکھا ہے۔


میں استدعا کروں گا کہ پاکستان تحریک انصاف کے جنوبی پنجاب، کور کمیٹی اور مرکزی میڈیا سیل کے ڈھانچوں میں تبدیلیاں لائی جائیں کیونکہ یہ تینوں عناصر اس عظیم موقع سے فائدہ اٹھانے میں اس وقت نا کام رہے جب گول کیپر زمین پر چت پڑا ہوا تھا اور گول کرنے کا سنہری موقع ہاتھ میں تھا۔


اگر ہم نے اپنا قبلہ فوری طور پر درست نہ کیا تو لودھراں ضمنی الیکشن کے نتائج بڑے دور رس ہوں گے۔


سلطان محمود غزنوی نے ہندوستان پر 17کامیاب حملے کئےمگر ان کی اہمیت اتنی نہیں جتنی بابر کےمغل حکومت قائم کرنے کی ہے۔ہماری17بار کی کوششیں کامیاب ہو بھی جائیں مگر ہم بابر کی طرح اپنی حکومت کب قائم کر سکیں گے۔


نظم و نسق کا میرا اپنا فلسفہ ہے


وہ یہ کہ ناکامی ایک دو بار ہو تو حکمت عملی کو تبدیل کر دیا جائے۔ بار بارناکامی کا تقاضہ ہے کہ پوری ٹیم کو ہی تبدیل کردیا جائے۔






Failure comes long after we start sliding down.Only earthquakes are unpredictable, failures are very much predictable.


By Ahmad Jawad

Episodes of Dharna, Panama, disqualification of NS, Internal rifts within PMLN, PMLN developing serious differences with Supreme Court & Army all were great opportunities for PTI. On every such opportunity, Imran Khan was leading from the front but most of the remaining leadership not only trailing behind but some of them only busy in collecting credit of each crest. Each crest & hype was seen as end of Nawaz Sharif giving over confidence to PTI team & over estimation of situation. It looks like it was a honey moon of basking in the glory of such opportunities but never really knowing how to convert opportunities into next election win.


PTI KP Govt performed better than other provinces and even better than all past KP governments but still not enough to create an undisputed model of governance. If this was not enough, for last three years, KP Govt and PTI Central Media team failed miserably to project genuine achievements of KP Govt to general public especially outside KP. It was a criminal negligence.


It was like KP doing 80% and projecting 20%.


Punjab was doing 20% and successfully projecting 80%.


Few marketing event or few Ads in Print or Electronic Media were considered enough to sell KP performance.


I was sitting in a PTI Central Media meeting and I was shocked to hear reasons behind lack of projection on KP performance. Reasons described were basically simply meant to shift the blame on KP Govt’s inability to coordinate with Central Media Cell. To me, it looked like a ping pong of ownership & responsibility happening between KP Govt & PTI Central Media Cell.


Let’s assume KP Govt could not project itself, why PTI Central Media Cell could not project KP. If a single volunteer sitting on social media cell can project KP Govt, why a very well invested & resourceful PTI Central Media cell cannot project KP.


There was a complete lack of understanding on narrative building & perception building. Very obsolete & traditional methods were adopted & developed at Central Media cell and unfortunately they were presented as some top notch media strategy. It was a total deception, incompetence & negligence.


Most of the key players of PTI, especially Media, were riding on the waves of Dharna & Panama but it was easier task, real task was to organise themselves to fill the vacuum.


Even if we had completely shut down PTI Central Media cell during Dharna and Panama episodes, Media would have still followed PTI with same vigour & attention. Interestingly but cleverly Central Media cell took credit of such Media gain which had nothing to do with their competence but more to do with the natural & commercial flow of Media behind any thrilling, exciting & popular theme in the society.


Somebody may ask which Media cell was working behind Khadim Hussain Rizvi’s undisputed rule on Media for more than a month. If a media cell like PTI Central Media cell was there, it would have taken the credit of such Media hype behind Khadim Hussain Rizvi.


Recently, CM KP announced that very aggressive media campaign is being launched. I may ask what is that strategy? If strategy is to publish some Ads in Newspapers & some Ads on electronic media, it might benefit some Ad agencies & their sponsors but it may not help PTI. We may very well recall our 2013 media campaign, a very expensive media campaign. Did it help us? We must learn to innovate & be creative in today’s digital world.


Narrative building is like first filling a water dam with water and then taking out canals to farthest & scattered areas to irrigate them.


Narrative building is like that water reservoir from where you draw canals of perception with various methods to reach the masses.


We never made a reservoir of perception building rather we carry water through bowsers & tankers and we assumed we have delivered water everywhere. We don’t realise only fire fighting is done with water tankers and not the daily supply of water to masses.


Did we learn anything from 2013 Elections? I have my serious doubts.


There is a breed of people in political parties who can clap well, make themselves visible more, praise you all the time, good at taking credit on others achievement, bask in others glory like their own and most importantly they have abundance of time to make themselves visible. Such people should be used as a crowd which is important for a political party but such breed should never be used in the corridors of strategy. If you allow them in your strategy meetings, your strategy is already ruined.


I have high hopes that similar characters in PMLN like Talal Chaudhry, Daniyal Aziz, Abid Sher Ali will provide more opportunities to PTI to recover. I wish PMLN continues to allow such characters to lead PMLN to ensure PMLN much desired fall.


Who should be responsible for lacklustre Projection of KP or who was the owner of such responsibility? This question remains unanswered even today?


Will Information Minister of KP or CM KP or or Head of Central Media Cell will accept their failure to project the performance of KP to masses? If not, stubbornness & blindness have no boundaries.


Entire world from United Nations, World Economic Forum, all international environmental agencies recognised and called Billion Tree project of KP as top 10 environmental control success stories in the world but imagine even today Imran Khan has to defend & convince Billion Tree success against negative propaganda. Does it not speak total failure of media strategy of PTI?


Does it not speak wrong selection of people running PTI Media strategy?


Strategy starts with ownership. For every role, there are many candidates who wants to own a role but there is no one who wants to take ownership for a strategy & result.


We are sliding down slowly but surely. By-Polls Result in Chakwal and Lodhran are alarm bells.


Mushahid Hussain, a cautious political opportunist, a shrewd political pulse reader has joined PMLN, this is not a coincident but part of a well planned strategy.


6 months given by Supreme Court to decide Panama Case is indirectly helping the lost cause of PMLN. Every attendance of Sharifs at Court is helping them to recover. It is unfortunately providing Sharifs an opportunity to prove themselves as victim. Putting Sharifs in jail might help them in elections.


Mujhe Kyun Nikala was a shame but slowly becoming a strategy to win elections. Sold Media is working on its conversion contours.


Our entire media strategy depends on either volunteers on social media and few good speakers of PTI on TV talk shows, nothing else.


Panama Case verdict putting Nawaz Sharif in jail will not make us win but how we run our elections campaign will win us.


A most likely post-elections alliance among PMLN, PPP, JUI F, MQM, ANP, Achakzai is our competition. Are we prepared for that?


Solutions are there but only if we first recognise threats & challenges and most importantly our deficiencies.


Politics is like a test match, playing a few good overs with sixes & fours may not secure a win, instead strategy is spread over 5 Days. In elections, strategy is spread over 5 years.We are now left with 5 months. What should have been done in 5 years will be required to be done in 5 months.


There are hundreds & even thousands of PTI supporters on social media who regularly writes and promotes PTI. Did we ever try to identify them, encourage them, engage them, acknowledge them? Whose job was this? It’s like your war is being fought on roads & streets by volunteers and all you needed was to gather them into one Army and make them fight under one strategy. It was not done rather credit of those volunteers was unfairly plucked and presented as feather in own caps.


I have to acknowledge Maryum Nawaz how she recently started working on Social Media which no other PMLN leader could do. I think she picked some right Advisers. Picking right advisers is the only job a leader has to do, rest is just a chain reaction.


Social Media was and is our greatest strength but we are happy to let it happen without strategy & objective.


Our firefighting approach in Media & Social Media might extinguish fire temporarily but do we realise every fire leaves behind ashes. It is upto us to stand besides the ashes and proudly announce we are the firefighters or we find the reason of fire & prevent any future fire. Remember a nation or organisation running on firefighters is always loser.


If PTI fails in 2018, this nation will fail, never to get a bigger opportunity.


Time to identify fire fighters and send them & keep them at fire stations.


Time to review our media strategy, time to review our election strategy, Time to make social media as our main weapon to win, Time to project KP unconventionally and most importantly Time to review current Central Media team.


Today, for the first time in last one year, I saw signs of confidence, smiles & joy on the faces of Nawaz Sharif & Maryum Nawaz.


I would recommend changes in the structure of South Punjab, Core Committee & Central Media cell, all three have failed to cash biggest opportunity of striking the final goal when the goalkeeper was lying flat on the ground.


There will be long term effects of Lodhran result, if direction is not corrected immediately.


17 successful attacks of Sultan Mahmood Ghaznavi on India are not as significant as establishing a Mughal Empire by Babur. Our 17 successful attacks might be complete but when will we establish an Empire like Babur.


My managment philosophy:


Failure once or twice asks for change in strategy, repeated failure asks for change in team.