کیا2018ءکے انتخابات 1992ءکا ورلڈ کپ ثابت ہوں گے یا پاکستان کے ایک اور متنازعہ انتخابات تصورہوں گے
احمد جواد
ماضی میں عمران خان نے وہ کارہائے نمایاں سر انجام دئیے ہیں جو بظاہر نا ممکن تھے جیسے ورلڈ کپ1992ء کی جیت، شوکت خانم کینسر ہسپتال کی تعمیریہاں تک کہ نمل یونیورسٹی کا قیام جو تجزیاتی چھان پھٹک کے حساب سے ناممکن تھے۔ ماہرین نےان کارناموں کو خارج از امکان قرار دے دیا تھا مگر عمران خان نے انہیں ممکن کر دکھایا۔فلمی دنیامیں ٹام کروز کو “ مشن امپاسیبل“ کا ہیرو سمجھا جاتا ہے مگر حقیقی زندگی میں عمران خان اس مشن امپاسیبل کا ہیرو ہے۔
ورلڈ کپ 1992ء چند ہفتوں پر مبنی دلآویز مہم تھی جس میں چند امکانات موجود تھے مگر حالات اور پانسہ پلٹنے کی بدولت یا ایک غیر معمولی بہادر کی خوش قسمتی جیت کا باعث بنی ۔ جی ہاں اس نے سب تخمینوں اور پیشین گوئیوں کو غلط ثابت کر دیا۔
شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر کا سہرا مشترکہ طور پرکرشماتی عمران خان کےپختہ عزم، مسیحا کی تلاش میں سر گرداں ایک قوم اور اس منصوبے کو پایہ تکمیل تک پہنچانے والی ٹیم کے سر جاتا ہے۔
اس طرح کی معجزاتی کامیابیوں پر ہرفرد کے دل میں اعتماد کا احساس ہوتا ہے کہ کچھ بھی ہو جائے ایک نہ ایک دن میں بھی شوکت خانم ہسپتال کی تعمیر، نمل یونیورسٹی کے قیام اور ورلڈ کپ کی جیت جیسی کامیابیاں سمیٹوں گا۔موجودہ افراتفری بھرے حالات میں بھی یہ معجزہ رونما ہو سکتا ہے جس کا عمران خان نے اپنی زندگی میں کئی بار مشاہدہ کیا۔
موجودہ حالات میں معجزے سے میری مراد یہ ہے کہ سپریم کورٹ شریف خاندان کے خلاف سخت فیصلے کرے اوراس کے ساتھ ساتھ انتظامیہ اپنے اثر اور رسوخ کے اظہار کے لئے ایسے ٹھوس اقدامات اٹھائے جیسے سخت فیصلے دینے والی سپریم کورٹ اور نیب جیسے اہم عناصر کا تحفظ، آزادنہ اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد اور غیر جانبدار عبوری حکومت کاقیام جو بلوچستان اور کراچی میں یکساں طور پر مؤثر ہو۔
ان فوائد کے زیر سایہ عمران خان اپنے جلسوں کے پسندیدہ گُرُ سے پاکستان بھرمیں جوش اور ولولہ سے دلوں کو گرمائیں گے ۔ اس دوران ان کی جادوئی ٹیم زیادہ سے زیادہ انتخاب جیتنے کے اہل امیدواروں کو جمع کر پائے گی۔
میرا اندازہ ہے کہ 2018ء میں عمران خان کی یہی انتخابی حکمت عملی ہوگی۔ یہ 1992ء کے ورلڈ کپ جیسی ترکیب ہے کہ شائد حالات اور وقت آپ کی کامیابی کے لئے یکجا ہو جائیں۔کیا ورلڈ کپ کی جیت کا کارنامہ 2018ء میں دہرایا جا سکے گا؟ جب تک عمران خان کی بدولت معجزے رونما نہیں ہو جاتے کیا ہم انگشت بدنداں ہی رہی گے؟
اس حکمت عملی کی دشواری اورخرابی یہ ہے کہ ہم نے فرض کرلیا کہ مسلم لیگ (ن) اور زرداری اس حکمت عملی سے بے خبر ہیں اور وہ اس کو تلپٹ کرنے کے لئے کوئی تگ و دو نہیں کریں گے۔ نواز شریف کی سربراہی میں کام کرنے والی مریم نواز، پرویز رشید، طلال چوہدری، دانیال عزیز اور شہباز شریف کی ٹیم سے اس امکان کی توقع تو لگائی جا سکتی ہے مگر زرداری سے اس طرح کی امیدلگانا عبث ہے۔وہ اپنی صلاحیت کا نمونہ 2018ء کے سینیٹ کے انتخابات میں ایوان بالا میں من پسند چیئرمین بنواکر پیش کر چکا ہے۔وہ پیپلز پارٹی کا وزیر اعظم لانے کے لئےاسی مہارت کا مظاہرہ کرنے کے لئے کھیل کی حکمت عملی ترتیب دے رہا ہے۔ یہ وزیر اعظم اگربلاول بھٹو ہوا تو اچنبھے کا اظہار نہ کیجئے گا۔اگر 2018ء کے بعدزرداری کو پاکستان مسلم لیگ(نواز) یا پاکستان تحریک انصاف کے ساتھ الحاق کرنا پڑا تو بھی یہی اس کی اولین شرط ہو گی۔ پاکستان مسلم لیگ(نواز) تو شائد اس شرط کو خوشی خوشی مان لے مگر پی ٹی آئی کے لئے مشکل ہوگی کہ وہ یا تو اس شرط کو رد کردے یا نہ چاہتے ہوئے بھی زرداری کو شادمان کردے۔
چوہدری نثار اصل میں تُرپ کا وہ پتہ جسے اگر بروقت کھیلا گیا تو یہ پاکستان تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کےلئے نقصان دہ ہوگا۔شہباز شریف کو اس تُرپ کے پتے کی خبر ہے اور وہ اس کو کھیلنا بھی چاہتا ہے۔سوال یہ ہے کہ آخر وہ یہ پتہ کب کھیلے گا؟
ایک اور تُرپ کا پتہ بھی ہے جو 80لاکھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں پر مشتمل ہے۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اس پتے کو استعمال کرتے ہوئے 2018ء کے انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کریں گے۔
پاکستانیوں کے نقطہ نظر سے اگر پاکستان کی قسمت کا فیصلہ پھر بھی پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کے ہاتھوں میں شطرنج کی بازی کی مانندمعلق رہتا ہے تو ہماری تباہی میں کوئی کسر نہیں رہے گی۔
میرے خیال میں پاکستان کو عمران جیسا لیڈر نہیں مل سکتا جو سٹیٹس کو پارہ پارہ کر سکے۔ اس سفر کے 22 سال مکمل ہونے کو ہیں اور اس کا آخری نتیجہ 2018ء کے نتائج کی شکل میں نکلے گا۔
میں سمجھتا ہوں کہ 2013ء کے انتخابات کے نتائج سے سبق حاصل کرتے ہوئے پاکستان تحریک انصاف بہتر نظم و نسق اور بہترین حکمت عملی ترتیب دینی چاہئےتھی۔ پھر بھی بہت سے پاکستانی دل کی گہرائیوں سے دعا گو ہیں اور اپنی بساط کے مطابق پی ٹی آئی کی حمائت کے لئے کوشاں ہیں۔
Will 2018 elections be a World Cup 1992 or it will be just another Pakistani flawed elections:
By Ahmad Jawad
In the past, Imran Khan has accomplished some “Missions Impossible” like World Cup 1992, SKMH and even NUML which analytically & statistically were not possible. Experts ruled them out and Imran Khan made it possible. In fiction, Tom Cruise is the hero of “ Missions Impossible” and in real life, Imran Khan is hero of “Missions Impossible”.
World Cup 92 was a few weeks of smartly experimenting with different options and it happened either by “Time & Chance got together” or “ Luck favours the brave” phenomenon. Yes he proved all predictions & calculations wrong.
SKMH was a sheer phenomenon and combination of Imran Khan Charisma & determination and a nation in search of a Messiah, followed by a professional team executing the plan.
With such miraculous successes, one tends to develop a sense of confidence that no matter what happens, in the end, I will be successful like SKMH/NUML and World Cup. Even in the current turmoil, such miracle may happen which IK experienced multiple times in his life.
My definition of miracle at this stage is some tough decisions against Sharifs by Supreme Court & simultaneously establishment putting its foot down by using its influence on vital factors like protecting & supporting NAB & Supreme Court for right but tough decisions, ensuring free & fair elections, neutralising caretaker govt, exerting it’s necessary influence in Baluchistan & Karachi.
With all these advantages, Imran Khan will storm through Pakistan with his favourite trick to hold Jalsas and light up the spirit. In the meantime, Imran Khan dream team will collect as much electables as possible.
In my opinion, this is the outline of Imran Khan strategy for 2018 elections. It’s like World Cup 92 that all “time & chances”should get together to bring a victory. Can there be a World Cup phenomenon in 2018? We can keep our fingers crossed. With Imran Khan around, miracles do happen.
Challenges & threats of such a strategy is assumption that PMLN & Zardari are not aware of this strategy and they are not planning to counter such a strategy. Yes, in case of PMLN, it is possible due to unwise strike team of Maryum, Pervez Rashid, Talal, Daniyal & Shahbaz Sharif led by Nawaz Sharif but it is not possible in case of Zardari. Zardari has played trailer of 2018 elections successfully in the form of Chairman Senate elections, he is now hoping similar game plan of bringing a PM from PPP and don’t be surprised if he is PM Bilawal Bhutto. His post 2018 elections alliance with PMLN or PTI will be based on this very condition. PMLN will gladly accept this condition whereas PTI will either refuse this option or will have to honour Zardari which was never in the script of PTI.
Wild card of PMLN is Chaudhry Nisar, if played timely, PTI & PPP will both get disadvantage. Shahbaz Sharif knows this wild card and he wants to play. Question remains when he plays the card.
There is one more wild card of 2018 elections, which is 8 Million overseas Pakistanis voting for first time. Who has the copy rights of playing this card will also determine 2018 elections.
From Pakistanis perspective, if Pakistan still hangs as a chess board of PPP & PMLN, we are doomed.
I don’t think Pakistan will ever get a leader like Imran Khan to challenge & tear apart status quo. The journey is completing its 22 years and final result will be in 2018 elections.
I think PTI could have come up with much better strategy & organisation after 2013 elections, if the lessons could be learnt.Yet, many Pakistanis from core of heart will pray and do whatever is possible to support PTI.
0 Comments
Thank you so much for contacting us.