احمد جواد
پنجاب حکومت کا دعویٰ ہے کہ ایک من گندم اگانے پر 1160روپےکا خرچہ آتا ہے۔
گندم کی سرکاری قیمت خرید 1300روپے مقرر کی گئی ہے۔
اوپر کے خرچے ملائے جائیں تو گندم کی قیمت 2000روپے تک جا پہنچتی ہے۔
بین الاقوامی مارکیٹ میں گندم 800روپے فی من کے حساب سے بِکتی ہے۔
پچھلے کئی سالوں سے لاکھوں ٹن گندم کے انبار گلنے سڑنے کے لئے سرکاری طور پر
خرید کر جمع کر لئے جاتے ہیں جن کے نقصان کا بوجھ بیچارے صارفین اور ٹیکس
گذاروں پر لاد دیا جاتا ہے۔ اس غیر معیاری مہنگی گندم کی برآمدی قدروقیمت بھی نہ
ہونے کے برابر ہے۔
جدید ٹیکنالوجی کے بغیر پیدوار کے بوسیدہ طریقے استعمال کرنے کی وجہ سے بے
قصور صارفین کو بلا وجہ گندم کی دو گنا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔
زراعت پر انحصار کرنے والی 60%آبادی کی تربیت کے لئے ابھی تک ایک بھی
تربیتی مرکز قائم نہیں کیا گیا۔
اگر بہترٹیکنالوجی اورجدید طریقے استعمال کئے جائیں تو ایک من گندم پیدا کرنے کا
خرچہ 100روپے سے بھی کم کیا جا سکتا ہے۔
یہ بظاہر آسان سا حل پچھلے پچاس سالوں سے ہماری افسر شاہی اور سیاسی قیادت کی
سمجھ میں نہیں آرہا۔
اگر تحریک انصاف نے زراعت کا لازمی جزو بنے بیٹھے ان زرعی پالیسی سازوں سے
جان نہ چھڑائی تو ہماری محرومیاں ماضی کی طرح بڑھتی رہیں گی۔ ابھی تک پاکستان
تحریک انصاف کی حکومت نے زراعت کے میدان میں کوئی بھی قابل ذکرقدم نہیں
اٹھای