احمد جواد





سلیم صافی نے اپنے ایک حالیہ مضمون میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ عمران خان فیصلے کرتے وقت بار بار اپنی غلطیوں کا اعادہ کرتے ہیں۔ اس لئے اسد عمر کی کسی ناکامی پر عمران خان کو ہی مورد الزام ٹھہرایا جانا چاہئے۔





اس کےجواب میں مختصراً عرض ہے کہ :





میدانِ کرکٹ میں عمران خان کے فیصلوں کے نتائج نےثابت کیا کہ اُس نے زیادہ تر درست فیصلے کئے۔ بسا اوقات کرکٹ کے کھیل میں کسی کھلاڑی کی جانچ پرکھ میں غلطی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر عمران خان منصور اختر کو ویوین رچرڈ کا ہم پلہ کھلاڑی سمجھتے تھے مگر منصور اختر کامیاب کرکٹر نہ بن سکے۔منصور اختر قدرتی صلاحیتوں سے آراستہ بیٹسمین تھے مگرکسی وجہ سے وہ چل نہ سکے۔ اعلیٰ مقام کے حصول اور مشن میں کامیابی کے لئے مطلوبہ صلاحیتوں اور ٹیلنٹ کے علاوہ بھی درست روّیوں، صحیح وقت کے انتخاب، قسمت کی یاوری، نیک نیّتی اور انکساری جیسے عناصر کی ضرورت ہوتی ہے۔ان میں کسی عنصر کی کمی کی وجہ سے ہمیں کبھی زندگی میں ناکامی سے دو چار ہونا پڑتا ہے۔نبی اکرمﷺ کی ذات کے علاوہ دنیا میں کوئی بھی کامل مطلق نہیں۔ ہم ٹیم کا چناؤ کرتے وقت کامیابی کے لئے دستیاب وسائل استعمال کرتے ہیں۔ پھر بھی کسی فرد کے انتخاب میں بھول چوک ہو جانے کا احتمال رہتا ہے جو اس کھلاڑی سے وابستہ کامیابی کی امید اور جوش و جذبہ کو گہنا سکتی ہے۔





اسد عمر کاروباری دنیا کے انتہائی ذہین، دبنگ، ایماندار، محنتی اور کامیاب لیڈر ہیں لیکن بطور وزیر خزانہ وہ کارگر ثابت نہ ہوئے۔ اگر انہیں کوئی اورسرکاری عہدہ دیا جائے تو شائدوہ اپنی صلاحیتوں کے بہتر جوہر دکھا سکتے ہیں۔





دنیا کا کوئی شخص یا لیڈر غلطیوں سے 100 فیصد مبرّا نہیں۔ چرچل، مہاتیر محمد، طیب اردگان اور اوباما کی قبیل کے لیڈر اندازہ لگانے میں غلطی کر سکتے ہیں۔غلطی کرنا کوئی بڑا مسئلہ نہیں۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ کوئی لیڈر فیصلہ غلط ثابت ہوجانے کا احساس ہونے کے بعد کتنی جلدی اپنی غلطی کا مداوا کرتا ہے۔





اسد عمر ناکام نہیں ہوئے۔ وہ شائداچھے اوپنر نہیں تھے۔ ہو سکتا ہے وہ خود کو بہتر ین مڈل آرڈر بیٹسمین ثابت کر سکیں۔ عمران خان فائنل میچ تک ان کی مہارت آزمانے کے لئے ٹیم کی پوزیشن تبدیل کرتے رہیں گے۔





عمران خان نے بطوروزیر اعظم وہی حکمت عملی اپنائی ہے جو انہوں نے بطور فاسٹ باؤلر، بطور کپتان، بطور فلاحی مخیّر اور بطور سیاستدان آغاز کرتے وقت اپنائی تھی۔ ایک چیز کا خیال کرنا ہم بار بار بھول جاتے ہیں کہ وہ جس روپ میں بھی لوگوں کے سامنے آئے بالآخر سرخرو ہوکر نکلے۔ مجھے ان کی گذشتہ حکمت عملی کی کامیابی پر یقین کامل تھا اور ان کے نئے کردار پر بھی بھروسہ ہے کیونکہ وہ بالآخر سرخرو ہو کر لوٹتے ہیں۔ ان پر میرا بھروسہ ہمیشہ درست ثابت ہوتا ہے۔ یہ ان کی کامیابیوں کی داستان شجاعت ہے اور اس داستان کے آخری باب میں بھی وہ اسی طرح فتح یاب قرار پائیں گے۔





کچھ صحافی حضرات ذہین ہونے کے ساتھ گھمنڈی بھی ہوتے ہیں۔ جب ان کی رائے لی جاتی ہے تو اس میں ان کی نخوت ٹپک رہی ہوتی ہے۔ یہ تکبّر آپ کی جڑوںمیں دیمک کی طرح سرائت کر جاتا ہے اوراپنے خیالات کے اظہار کے وقت آپ زمیں بوس ہوجاتے ہیں مگر یہ رعونت آپ کے اندر سے ختم نہیں ہوتی۔ابوجہل بیک وقت دانائی کا پیکر اور تکبر کا کوہ گراں تھا۔ جب کبھی ہمیں اپنے خیالات کا اظہار کرنا ہو تو ابوجہل کی مثال کو مد نظر رکھنا چاہئے۔