احمد جواد





اگر کوئی شخص مشکل وقت میں آپ کو بلا سود یا معمولی شرح سود پر قرض دے اور اس کے عوض آپ سے شفافیت، کفائت شعاری، قابلیت، بہترمالی نظم و نسق اور ذرائع آمدن میں اضافے کا مطالبہ کرے تو آپ قرض دینے والے کو کیوں مورد الزام ٹھہرائیں گے؟





قرض کی سہولت آپ کو مشکلات سے بچانے کے لئے فراہم کی جاتی ہے ۔ قرض کی رقم کی بہترسرمایہ کاری سے آپ فوائد حاصل کرکے اپنے توازن ادائیگی کو بہتر بنا سکتے ۔





وہ ممالک جنہوں نے آئی ایم ایف سے قرض کے لئے رجوع کیا وہ اکثر مشکل مالی حالات کا شکار تھے۔جن ملکوں نے اپنی مشکلات کے ازالے کے لئے آئی ایم ایف سے قرض لیا مگر اپنے مسائل کو حل نہ کر سکے وہ زیادہ ابتری کا شکار ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ ان ملکوں کو ٓئی ایم ایف سے بار بار قرض لینا پڑا۔





ٓائی ایم ایف نے کبھی کسی ملک کو کرپشن کے خاتمے، بہتر مالی نظام کے نفاذ، ذرائع آمدن بڑھانے، حکمرانی کو بہتر بنانے کی تگ و دو کرنے،ملازمت کے مواقع بڑھانے، اہل افراد کی تعیناتی، اہلیت اور انصاف کو فروغ دینے، کاروبار کو سہل کرنے، احتساب کرنے او رشفافیت کو رواج دینے سے نہیں روکا۔تو پھر اپنی ناکامیوں کے لئے ہم ٓائی ایم ایف کو کیوں قصور وار ٹھہرائیں ؟





آئی ایم ایف سے قرض لینے والے ممالک میں سر فہرست آسٹریلیا، آسٹریا، ترکی ، آئس لینڈ، بیلجیم، ڈنمارک اور آئرلینڈ جیسے ممالک ہیں جنہوں نے آئی ایم ایف سے قرض لے کر اس کو بہتر انداز میں استعمال کرکے فوائد حاصل کئے۔ ان ممالک کو کبھی اپنی نالائقی کے لئے آئی ایم ایف کو طعنہ زنی نہیں کرنی پڑی نہ ہی انہیں آئی ایم ایف کے پاس دوبارہ جانے کی ضرورت پڑی۔





میکسیکو، سپین، پاکستان، سری لنکا، ارجنٹائن، کولمبیا، مصر، افریقی ممالک اور بہت سے دوسرے ملک ہیں جنہیں اپنی بیمارمعیشت کو بچانے کے لئے آئی ایم ایف کا سہارالینے کی لت لگ چکی ہے۔ان ممالک نے اپنے اندرونی مالی مسائل کو حل کرنے کا گرُ کبھی نہیں سیکھا۔





ماضی میں پاکستان ا ٓئی ایم ایف سے 21بار رجوع کر چکا ہے۔ان میں زرداری اور نواز شریف کے دونوں ادوار بھی شامل ہیں جب انہوں نے اپنے اولین سالوں میں معاشی مشکلات سے نجات کے لئے ا ٓئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکیج حاصل کئے۔آج ہم 3000 ٹریلین روپے کے مقروض ہیں جوگذشتہ 30سال میں قرض لئے گئے۔





اگراتنےبھاری قرضے ا ٓئی ایم ایف سے لیتے وقت کوئی شور و غوغا بلند نہیں کیا گیاتو پھر آج اس بات پر کیوں ماتم برپا ہے؟





پاکستان مسلم لیگ(ن) اور پاکستان پیپلز پارٹی کے ادوار میں آئی ایم ایف سے لیا گیا قرض اتارنے کا واحد راستہ یہی ہے کہ ٓائی ایم ایف سے مزید قرض لیا جائے۔ مگر اس بار اپنے طرز حکمرانی کو بہتر بنانے کے لیے کلیدی اسامیوں پر اہل افراد کو تعینات کرنا ہوگا۔ اگرہم 400سے زائد سرکاری اداروں کی سربراہی ایماندار، قابل، کامیاب، محنتی اور پرُ عزم افراد کو سونپنے میں کامیاب ہوگئے تو پھر شائد ہمیں آئی ایم ایف کے پاس کبھی نہ جانا پڑے۔





آئی ایم ایف محض حکمرانی کو درپیش مشکلات کو دور کرنے کا وسیلہ بنتا ہے۔ہمیں اس وسیلے سے مستفید ہونا ہے ۔صرف اسی طرح ہم اپنے گھر کے اندر کے معاملات کو سلجھا سکیں گے۔یہی موقع ہے کہ آئی ایم ایف سے قرض لے کر ہم اپنی گھریلو مشکلات دور کرلیں تاکہ ترکی اورملائشیا کی طرح ہمیں بھی دوبارہ آئی ایم ایف کا آسرا نہ لینا پڑے۔





ہرکلیدی عہدے پر بہترین فرد کو لگادینا ہی ہماری مشکلات کے حل کا واحدنسخہ کیمیاء ہے۔ جو لوگ ماضی میں مسائل بڑھانے میں شامل رہے وہ کسی بھی عہدے کے لئے مطلوب بہترین فرد نہیں ہو سکتے۔