چھوٹے جنگلات اور سایہ دار درختوں کی افادیت





احمد جواد





باغات کی خوبصورتی اورخوبصورت منظرکشی کے لئےدیدہ زیب گھریلو پودہ جات، پیوندی پھولوں کے پودے اورزیبائشی پودے لگائے جاتے ہیں۔ ان آرائشی پودوں کی کاشت کو گل بانی کہا جاتا ہے جو باغبانی کی ہی ایک قسم ہے۔





سایہ دار درخت کافی اونچائی تک بلند ہوتے ہیں اور ان کی شاخیں دور دور تک پھیلی ہوتی ہیں۔





پاکستان میں ہم گھر کے صحن، پارکوں اور سڑک کنارے آرائشی پودے لگا کر ان کی مسلسل نگہداشت کے لئے بھرپور محنت کرنے کے ساتھ کافی سرمایہ لگا کر وافر پانی بھی صرف کر دیتے ہیں۔





اس کے برعکس سایہ دار درختوں کو بڑی آسانی سے انتہائی سستے داموں پروان چڑھایا جا سکتا ہے ۔ سایہ دار درخت انسانوں، جانوروں اور گاڑیوں کے لئے سایہ فراہم کرتے ہیں، ماحول میں بہتری لاتے ہیں، بادل برسانے کا سبب بنتے ہیں اورپرندوں کو بحفاظت ٹھکانہ فراہم کرتے ہیں۔بلند و بالادرخت قدرتی حسن اور خوبصورت رہن سہن کا ماحول بخشتے ہیں۔یہ زیبائشی پودوں سے زیادہ خوبصورت بہار دکھلاتے ہیں۔





ہماری کمزور معیشت، از حد گرم موسموں اور ماحولیاتی آلودگی سے اٹے ہمارے علاقہ جات کے پیش نظر ضروری ہے کہ حکومت قانون سازی کرکے کم از کم پانچ سال تک سایہ دار پودے لگانے کی حوصلہ افزائی کرے اور آرائشی پودے لگانے پر پابندی لگائی جائے۔





گھروں، کارخانوں، دوکانوں، کمرشل پلازوں اور رہائشی سکیموں میں قانونی طور پر سایہ دار درخت لگانے کی پابندی لگائی جائے۔





پانچ مرلے سے لے کر چند ایکڑوں کے رقبے میں چھوٹے پیمانے کے جنگلات متعارف کرائے جا سکتے ہیں۔اگر درختوں کی شاخیں سات فٹ کی اونچائی تک اٹھی رہیں تب بھی انسانوں کی آمدورفت میں کوئی رخنہ نہیں پڑے گا اوردرخت اپنی بلندی کی وجہ سے ارد گرد کی زمین کو وافر سایہ فراہم کرے گا۔





آرائشی پودوں کی اپنی تجارتی اہمیت ہے کیونکہ وہ کثیر سرمائے کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں۔تاہم اگر ہم پھولدار پودوں سے دس گنا زیادہ سایہ دار درخت لگا لیں تو ان سے زیادہ پیسے کما سکتے ہیں۔