Writer is Chief Visionary Officer of World’s First Smart Thinking Tank ”Beyond The Horizon” and most diverse professional of Pakistan. See writer’s profile at http://beyondthehorizon.com.pk/about/ and can be contacted at “pakistan.bth@gmail.com”



اے آر وائی یا جیو


احمد جواد


 Nayatelحال ہی میں کی جانب سے سوشل میڈیا پر جاری کی گئی ٹی وی چینلوں کی ریٹنگ میں نے پوسٹ کی جس نےبحث کا عالم برپا کر دیا۔کچھ لوگوں نے ریٹنگ کو محض اس لئے مسترد کر دیا کہ یہ اُن کی مرضی کے مطابق نہیں تھی۔اسی ادھیڑ بن میں میرے ذہن میں سوال آیا کہ  اگر یہ ریٹنگ ایک لاکھ ناظرین کے سیمپل سے طے نہیں کی جاسکتی تو کسی چینل کی مقبولیت کیسے طے کی جائے؟راولپنڈی اسلام آباد کے جڑواں شہروں کی آبادی  کوملا کرپاکستان کی سب سے زیادہ پڑھی لکھی آبادی کا علاقہ سمجھا جاتا ہے۔یہاں کیبل ناظرین کے ایک لاکھ لوگوں کے سیمپل  کو پاکستان کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے  اور دانشورلوگوں کا سیمپل سمجھا جائے گا۔اس آبادی میں سرکاری ملازمین، بیوروکریٹ، سفارتکار، کاروباری، طالبعلم، غیر ملکی، فوجی حضرات اور دانشور سب لوگ شامل ہیں۔حقائق سے انکار ممکن نہیں جب کہ ہمارے شخصی خیالات جانبدارانہ اور گمراہ کن ہوسکتے ہیں۔ اسی لئے ہمارے یقین اور اعتقاد کی نفی کرنے والے حقائق کو تسلیم کرنا آسان نہیں ہوتا۔بالکل اسی طرح جیسے ہم پی ٹی سی ایل کی ریٹنگ کا انکار نہیں کر سکتے۔


کچھ لوگوں نے دس بیس ہزار ٹی وی ناظرین کے سیمپلوں کی بنیاد پر ریٹنگ جاری کرنے کے لئے پرائیویٹ کمپنیوں کی شکل میں اجارہ داری قائم کر رکھی ہے۔وہ ٹی وی کے مخصوص تعداد میں ناظرین کے گھروں کے باہر مانیٹرنگ باکس آویزاں کر دیتے ہیں۔اس قسم کی ریٹنگ کا ماضی کا ریکارڈ جانبداری کی وجہ سے مشکوک رہا ہے جس نے کئی سکینڈلوں کو جنم دیا۔ماضی میں جیو کی ریٹنگ مشکوک نظام کی وجہ سے ہمیشہ بلندی کی جانب مائل رہی۔مگر اب شفافیت اور تکنیکی آلات کی بدولت ماضی کےدعووں کی قلعی کھل رہی ہے۔


ہماری اپنی پسند نا پسندکی وجہ سے ہم پر  آنکھوں پر جانبداری کی پٹی باندھ لیتے ہیں کیونکہ ہمارے لئے اچھا چینل ہمارا پسندیدہ چینل ہی ہوتا ہے۔یہ کلُیہ ذاتی پسند کی حد تک تو ٹھیک ہے مگر ضروری نہیں کہ یہ حقیقت پر مبنی بھی ہو۔


میں خود جیو کا بڑا معترف رہا ہوں۔ جیو کے ڈائرکٹر نیوز اور کرنٹ افیئرز رانا جواد  بھی گواہ ہیں کہ جیو پر پابندی کے ایّام میں میری ہمدردیاں کس قدر جیو کے ساتھ تھیں۔مگر طویل عرصے تک میرے مشاہدے، قربت اور تجزیئے  اور حب الوطنی نےمجھے جیو نہ دیکھنے پر مجبور کردیا۔


جیو کو ملنے والی غیر ملکی امداد، اس کے بھارت کے ساتھ قریبی روابط، اس کی نیو یارک ٹائمز کے ساتھ قربت، اس کےبدکردار مالک کے تکبّر، اس کے سلیم صافی، عمر چیمہ اور نجم سیٹھی جیسے بھاری معاوضہ پانے والے موقع پرست اور لفافہ گیر اینکر پرسن  حضرات اور کئی دیگر عوامل کی وجہ سے میں جیو کو ترک کرنے نتیجے پر پہنچا ہوں۔


میری ناچیز رائے میں جیو حکومت اور خاص طور پر پاکستان مسلم لیگ(ن) کا پروردہ چینل ہے۔اگر کسی کو اس رائے میں شک ہو تو جیو کو ملنے والے غیر ملکی فنڈز اور حکومتی اشتہارات سے اندازہ کر سکتا ہے۔جو چینل ایک کرپٹ حکومت کی حمائت میں اُس  کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے میں پیش پیش ہو اُسے میں ایک اچھا چینل قرار نہیں دے سکتا۔


اے آر وائی حکومت مخالف چینل ہے۔اسے فوج اور پی ٹی آئی کا حامی بھی کہا جاتا ہے مگر ان دونوں کے پاس کسی چینل کو دینے کے لئے نہ فنڈ ہیں نہ اختیار ۔اس کے باوجود  اے آر وائی کو حکومت مخالف چینل گردانا جاتا ہے۔میں سمجھتا ہوں کے حکمرانوں کے خلاف بات کرنا جہاد سے کم نہیں اورنہ یہ کوئی آسان کام ہے۔اسی لئے اے آر وائی میرا پسندیدہ چینل ہے۔


ایک زمانے میں خود میں ضیا الحق اور پرویز مشرف پر کڑی تنقید کرتا رہا ہوں مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ میں فوج مخالف شخص ہوں۔میرے خیال میں پاکستان میں فوج ایسا ادارہ ہے جس میں بھرتی اور ترقی کا طریقہ کار  شک شبہ سے بالا تر ہے۔فوج میں کسی ملازم یا چپڑاسی تک کا بیٹا جرنیل بن سکتا ہے۔مجھے خوب علم ہے کہ پاکستانی فوج اور آئی ایس آئی اسرائیل، امریکہ، بھارت اور افغانستان کے پاکستان دشمن عزائم کی راہ میں رکاوٹ بنی ہوئی ہیں۔اگر کبھی فوجی اداروں میں کوئی خرابی نظر آئے تو میں ان پر تنقید ضرور کرتا ہوں مگر دشمنوں کی خواہش پوری کرنے کے لئے میں فوجی اداروں کی توہین نہیں کرتا۔اے آروائی کو پسند کرنے اور جیو سے نفرت کرنے کی یہ بھی ایک وجہ ہے۔اے آروائی فوجی اداروں کی عزت اورحمائت کرتا ہے اس کے برعکس جیو فوجی اداروں کو رسوا کرتا ہے۔


اپنی پسند نا پسند کو بالائے طاق رکھتے ہوئے میں اس بحث کو دل و دماغ رکھنے والے ناظرین پر چھوڑتا ہوں  کہ وہ اپنی پسند نا پسند کا فیصلہ خود کریں۔ٖصرف یہ استدعا کرنی مقصود ہے کہ  سُنی سنائی پر کان دھرنے کی بجائے استدلال، علم ، تاریخ اور تجزیات کو پیش نظر رکھا جائے۔







ARY OR GEO?

By Ahmad Jawad

Recently I posted rating of TV channels by Nayatel on social media and it triggered a debate. Some rejected the rating merely at their will. I was confused, question came to my mind what could have determined a credible channel? If it is not rating from a a sample of 100,000 viewers? Islamabad combined with Rawalpindi perhaps is one of the most or the most literate region of Pakistan and a sample of 100,000 subscribers is a very good test from most literate population of Pakistan. This population includes Govt servants, bureaucrats, diplomats, businessmen, students, foreigners, Defense personnel, intellectual etc. It’s not easy to accept a fact which shakes or rejects our beliefs & faiths but facts are undeniable and personal views can always be misled and biased. Just like I can not deny PTCL rating.


There are a few monopoly agents in the form of private companies who have been issuing Channel rating with a sample rating from 10,000 to 20,000 viewers. They attach monitoring boxes to a fixed number of TV viewers. Such ratings have a track record of being dubious oftenly scandalised and blamed to be compromised. GEO rating in the past mostly was riding on such dubious system. With technology and transparency, myths are being broken.


We often are blinded with our choices, perhaps our favourite channel is our criteria of a good channel,fair enough for an individual choice but not as a fact.


I have been a great fan of GEO, Rana Jawad Director News & Current Affairs GEO would endorse that how helpful and sympathetic I was, during ban on GEO, but my observation, exposure, analysis prompted me over a period of time not to watch GEO out of my patriotism.


GEO foreign funding, it’s close Indian connections, it’s close affiliation with NYT, it’s arrogant, characterless owner, it’s highly rewarded, opportunist & Lifafa anchors like Salim Safi, Umar Cheema, Najam Sethi and many other factors helped me to reach to this decision.


In my humble opinion, GEO is a Govt and precisely PMLN channel. Anybody has any doubt, check the fund figures of Govt ADs. I cannot call such a channel as good channel which is favoured by a corrupt Govt to run their agenda.


ARY is an anti Govt Channel. It is also pro military and pro PTI channel. But PTI & Military both have no resources or authority to fund or sponsor a channel, so ARY theme is basically anti govt. I consider speaking against the rulers is a Jihad and it’s not easy. That is my reason of preferring ARY.


I have been a strong critique of Zia and Mushrraf but that does not make my thoughts as anti military. In my opinion, Military is the only institution in Pakistan whose selection & promotion merit is fool proof. It allows son of a peon or a servant to become a General. I also know that our military & ISI are the only institutions who are last hurdle to anti Pakistan designs of Israel, USA, India & Afghanistan. I do criticise military institutions when I see something wrong but do not want to redicule my Military Institutions because this is what my enemy wants from me. This is another reason that I like ARY and I hate GEO. ARY respects & supports our military institutions and GEO degrades Military institutions.


Not withstanding how I see things, I leave the discussion that everybody has the mind & soul to make his own choice but I only stress to make our choices on logic, knowledge,history and analysis not just hearsay.