Writer is Chief Visionary Officer of World’s First Smart Thinking Tank ”Beyond The Horizon” and most diverse professional of Pakistan. See writer’s profile at http://beyondthehorizon.com.pk/about/ and can be contacted at “pakistan.bth@gmail.com”



نجم سیٹھی محض شہرت، شناخت اور تماش بینی کی بھوکی قوم کا ایک نمونہ ہے


احمد جواد


میں نے پی ایس ایل کے فائنل کے موقع پر نجم سیٹھی کو پوری قوت سے گلا پھاڑ کرجذباتی انداز میں فتح مندی کی تقریر کرتے دیکھا۔میں اس سے پہلے بھی تاریخ کے جھروکوں میں اس طرح کے ہونے والےتماشوں سے مانوس ہوں۔جی ہاں یہ قدیم روم میں اکھاڑوں میں تیغ زنی کے مقابلوں کا بادشاہوں کے ہاتھوں افتتاح کے مناظر تھے۔ اس وقت بادشاہ کسمپرسی کی زندگی گذارنے والے لوگوں کی تفریح کے لئے اس طرح کے مقابلوں کا اہتمام کرتے اور وہ مفلوک الحال ان تفریحی لمحات سے لطف اٹھانےکے لئے اکھاڑوں میں امڈ آتے۔مجھے بھی نجم سیٹھی ان رومن بادشاہوں کی طرح نظر آئے جو بھوکے اور تباہ حال لوگوں کے جذبات سے کھیل کر ان سے داد کے طلب گار تھے۔


آج ہماری قوم کی حالت قدیم رومنوں سے قطعی مختلف نہیں۔ رومنوں کی طرح ہماری ہاں بھی ایک پارلیمنٹ ہے جو امراء اور طبقہ اشرافیہ کے نرغے میں ہے جہاں سیاست اقتدار کا کھیل تھا جبکہ لوگ اپنے حقوق اور ذمہ داریوں سے غافل ہوکر روم کی گلیوں میں گل سڑ رہے تھے۔رومن حاکموں کے ہاں بھی عوام کے ذہنوں کو مسخر کرنے والی مضبوط میڈیا مہم چلائی جاتی تھی جیسی آجکل مریم اورنگزیب، جیو اور ڈان گروپ چلا رہے ہیں۔


ہمارےجشن فتح اور رومن تلوار بازوں کے جشن میں فقط اتنا سا فرق ہے کہ ہمارے ہاں خون سٹیڈیم میں نہیں گلیوں بازاروں میں بہتا نظر آتا ہے۔یہ رزق خاک ہونے والا خون ہمارے خاک نشین غریب لوگوں، عورتوں اور بچوں اور ہمارے بہادر سپاہیوں کا ہے۔


میں نے پی ایس ایل کے موقع پر اپنی قوم کو دیوانہ وار جشن مناتے دیکھا۔ میں اس معاملے کو اپنی قوم کے پس منظر کے حوالے سے دیکھتا ہوں۔مجھے پوری قوم متفقہ طور پراس جیت کو پوری قوم کی جیت سمجھ کر نعرہ زن ہوتی نظر آئی۔ لیکن تھر میں بھوک اور پیاس سے مرنے والے بچوں کو بچانے میں فتح کے آثار نظر نہیں آئے۔ہر روز ا ٓلودہ پانی پی کر مرنے والے ہزاروں بچوں کے حوالے سے میں اس مسئلے کے حل کی فتح کا میں منتظر ہوں۔ میں اس فتح کی امید لگائے بیٹھا ہوں جب غریب لوگوں کو انصاف کے حصول کے لئے پوری زندگی صرف نہیں کرنی پڑے گی۔وہ فتح جب حکمران اہلیت کو بوٹوں کی گرد کی طرح جھاڑ کر پرے نہیں پھینک دیں گے۔میں اس فتح کا آرزو مند ہوں جب میرا وزیراعظم خفیہ مشن پر امریکہ جا کر ایئر پورٹ پر شرمناک تلاشی کے مراحل سے گذرنے کے لئے ذلیل و خوار نہیں کیا جائے گا۔میں اس وقت فتح سمجھوں گا جب قانون “بہن دی سری “کے آگے سر نگوں نہیں ہوگا۔


کیا قوم ہے جو ناموری اور شناخت کے حصول کے لئے معمولی کامیابیوں کے لئے ماری ماری پھر رہی ہے۔


پاکستان میں بین الاقوامی کرکٹ کے لوٹ آنے سے ہم باوقار قوموں کی صف میں شامل تو نہیں ہو جائیں گے۔


با عزت قوم بننے کے لئے ہمیں ابھی بہت دور تک جانا ہے۔اس کے لئے بین الاقوامی کرکٹ کے علاوہ ہمیں بکاؤ، کرپٹ اور ناکارہ قیادت ، نظام حکومت، میڈیا، عدلیہ اور افسر شاہی سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہوگا۔بین الاقوامی کرکٹ کے لوٹ آنے سے بیرونی ممالک کے امیگریشن اور ویزہ دفاتر میں ہمارے پاسپورٹ کی پذیرائی نہیں ہو گی۔ ہمیں اس سے بھی گھمبیر مسائل کا سامنا ہے۔


دنیا کے سامنے ہم انتہائی کرپٹ، افسر شاہی زدہ کاروباری ماحول ، ابتر امن و امان، بچوں کے ساتھ جنسی درندگی، نا انصافی، نا قابل ذکر متوسط طبقے اور خطرناک حد تک عدم توازن والا معاشرہ اور بین الاقوامی طور پر بری شہرت کے مناظرپیش کرتے ہیں۔
ہمارے منائے جانے والے جشن کھوکھلے اور بے معنی ہیں۔


مجھے لوگوں کے بین الاقوامی شہرت کے حامل کرکٹروں کے ہماری پی ایس ایل میں شرکت کا جشن منانے سے کوئی سرو کار نہیں لیکن میں تو یہ سوچ کر ہلکان ہوتا ہوں کہ ہماری قوم تباہی کے دہانے پر بیٹھ کر اپنی بقا کی جنگ لڑ رہی ہے۔


کیا یہ باجے گاجے ہماری گمبھیرنا امیدی کا جشن منانے کےلئے بجائے جا رہے ہیں؟
کولمبیا، میکسیکو اور ارجنٹائنا کے پاس بین الاقومی شہر ت کے حامل فٹ بال کے کھلاڑی ہیں۔ لیکن کیا فٹبال کے لئے اس جنون کی خاطر وہ عظیم اور باوقار قوموں کی صف میں شامل ہو گئے ہیں۔


ہمیں یہ حقیقت فراموش نہیں کرنی چاہئے کہ قوموں کی توقیر اس وقت کی جاتی ہے جب وہ جاپان، جرمنی، سنگاپور، ترکی، چین، اسرائیل اور جنوبی کوریا کہ طرح تعلیم ، صحت، عدل، اہلیت، انتظامی اور قانون کی حکمرانی کے میدانوں میں فتح کے جھنڈے گاڑتی ہیں۔
نجم سیٹھی کی قبیل کے لوگ تو رومن حکمرانوں کی طرح بڑے کروفر کے ساتھ اس خانماں برباد قوم کے جذبات سے کھیلتے رہیں گے۔


تو پھر رومن حکمرانوں اور نجم سیٹھی کو کیوں مورد الزام ٹھہرایا جائے۔ وہ تو ہمارے ساتھ وہی سلوک کر رہے ہیں جس سلوک کے ہم مستحق ہیں۔







Najam Sethi is just replica of a starved nation from glory, recognition & performance.

By Ahmad Jawad

I saw Najam Sethi making an emotional & jubilated speech at full throat & energy at the final of PSL. I have seen such spectacle sometimes in the history before as well. Yes, it was a Roman King inaugurating gladiators combats at colosseum. King would arrange such entertainment for a public who were living a pathetic low life but so desperate to buy a few moments of entertainment at colosseum. Najam Sethi appeared to me similar like Roman King who was playing with the emotions of a starved & desperate Nation and expecting applause.


Our today’s status as a nation is also not so different than Romans where we have a parliament like Romans which is infested with rich and elite class where politics is all about power games while Nation rot in the streets of Rome with least realisation of their rights & responsibility. Roman rulers also ran a strong Media campaign to brainwash the public, something similarly running today by Maryum Aurangzeb, GEO & Dawn.


Our celebrations are no different than celebrations at gladiators fighting at colosseum with a small difference that blood is not flowing in the stadium, it is flowing in streets, it is cheap blood of poor, it is blood of women and children, it is blood of our soldiers.


I saw my Nation going crazy & jubilating on PSL. I m just viewing this subject from the perspective of a nation. I saw my Nation unanimously repeating one word “ This is win of Pakstan”. A win I don’t see in Thar with starving & thirsty children, a win I don’t see when thousands of children die every day with infected water, a win I don’t see when poor spend his whole life in seeking justice, a win I don’t see when merit is treated by ruling elite like a dust on a shoe, a win I don’t see when my PM go on a secret mission to US to seek their help with a disgraceful treatment at airport, a win I don’t see when law becomes “ Payn Dhi Siri”.


A nation terribly starved with glory and recognition is desperate to celebrate small achievements.


Return of International cricket to Pakistan will not place us in a league of honourable nations.


To become a reputable nation, we have a very long way to go. It’s not about International cricket, it’s about sold out, corrupt & depleted leadership, governance, media, Judiciary & bureaucracy. Our passport at foreign visa offices & immigration desk will not get respect with arrival of International cricket, we have far more serious issues at hand.


What we present to the world is most corrupt & bureaucratic investment & business environment, depleted law & order, rapes, child porno, Injustice, dangerously imbalanced society with weak or negligible middle class and extremely poor International repute.


Our celebrations are hollow & meaningless.


I don’t mind people enjoying cricket and celebrating return of few international cricketers in our PSL, but I thought we are a nation sitting on edge and fighting a battle of survival.


Is such passion or celebration a sign of our deep desperation to celebrate something?


Columbia, Mexico & Argentina might appear as great football nations with Internationally acclaimed players, but does this passion for football make them a great & respectable nation.


We must not forget nations are respected when they progress in education, health, justice, merit, governance and rule of law like Japan, Germany, Singapore, Turkey, China Israel & South Korea.


Najam Sethi and likes of him will continue to act like Roman rulers playing with the sentiments of a desperate Nation with the art of Pomp n show.


Why blame Roman rulers and why blame Najam Sethi, they are doing, what we deserve.


I know I might look like a a person making a speech in the midst of Gladiators fighting in colosseum and crowd going crazy. May God help me and help this nation.