احمد جواد





آئیے سب سے پہلے بھارت  میں لگائے گئے کچھ وزرائے خزانہ کی تعلیمی قابلیتوں کا جائزہ لیتے ہیں:





  • مرارجی ڈیسائی نے دس مرتبہ بجٹ پیش کیا حا لانکہ ان کی تعلیمی  قابلیت خزانہ کے امورسے مطابقت نہیں رکھتی تھی۔
  • سات مرتبہ بجٹ پیش کرنے والے پرنابھ مکرجی نے قانون کی ڈگری حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ تاریخ اور پولیٹیکل سائنس میں ماسٹر کر رکھا تھا۔
  • پولیٹیکل سائنس  میں ایم اے اور آئی اے ایس کرنے والے یشونت سنہا نے بھی سات دفعہ بجٹ پیش کیا۔
  • انڈین سول سروس ، سی آئی ای  پاس کرنے والے سی. ڈی. دیش مُکھ نے چھ مرتبہ بجٹ پیش کیا۔
  • چھ مرتبہ بجٹ پیش کرنے والے ڈاکٹر منموہن سنگھ  کی تعلیمی قابلیت خزانہ امور کے عین مطابق تھی اور انہیں ریزرو  بینک آف انڈیا کے گورنر رہنے کا تجربہ بھی حاصل تھا۔
  • اگر آپ کو یاد ہوتو 1987ء میں راجیو گاندھی نے بھی بجٹ پیش کیا تھا۔ ان کی واحد قابلیت یہ تھی کہ ان کے نام کے آخر میں گاندھی  لگا ہوا تھا۔




کسی بھی وزیر خزانہ کا ماہر معیشت دان ہونا ضروری نہیں۔یہی وہ سبق ہے جو ہمیں دنیا  کی ابھرتی ہوئی معاشی قوت اور سب سے بڑی جمہوریت سے ملتا ہے۔ اس سے ملتی جلتی مثالیں سنگاپور کے لی کوآن، ملائشیا کےمہاتیر محمد اورترکی کے طیب اردگان کی دی جا سکتی ہیں۔ ان ممالک کے معیشت دان زیادہ تر سیاسی لوگ یا کاروباری افراد تھے۔





ہمیں   کسی پرائیویٹ سیکٹر  میں کام کرنے والے ملازم اور ایک دبنگ سرمایہ کار میں فرق روا رکھنا ہوگا۔پرائیویٹ سیکٹر کا ملازم  زیادہ سے زیادہ اس ادارے کا چیف ایگزیکٹو آفیسر ہو سکتا ہے جو تابعدار، سلجھا ہوا ، محنتی اور با صلاحیت بھی ہوگا  اوررٹائے گئے اصولوں پر من و عن عمل پیرا ہوگا۔ لازمی طور ہ پر وہ دستیاب وسائل بروئے کار لا کر کامیابی سے کاروبار چلا رہا ہوگا۔ لیکن وہ ملازم کبھی بھی ایک بزنس مین کی طرح   نہ رسک لے گا، نہ مشکلات اور چیلنجوں کا سامنا کرے گے۔ اس کی کُل کائنات مہینہ کے آخر پر ملنے والے اُس کی تنخواہ ہوتی ہے۔ اُس کو فقط اپنی تنخواہ غرض ہوتی ہے۔ اگرنوکری سےجواب ہو جائے تو وہ خود کو بے دست و پا  محسوس کرتا ہے۔ ورنہ اس کی تمام تر سوچوں کا محور اُس کی ہونے والی ترقی، اپنے مالکوں کی ہدایات پر عمل کرنا اوران کو خوش رکھنا ہوتا ہے۔وہ زیادہ سے زیادہ سی ای او بن کر کسی ادارے میں کارکردگی دکھا سکتا ہے۔ کسی ڈوبتے جہاز کی باگ ڈور اُس کے ہاتھ میں دینا  فاش غلطی ثابت ہو سکتی ہے کیونکہ وہ صرف صحیح سالم تیرتےجہاز کو پار لے جانے کی اہلیت رکھتا ہے۔





میری یہ رائے ہے کہ  ملازمت پیشہ فرد کو کبھی وزیر خزانہ تعینات نہیں کرنا چاہئے۔ وہ بیڑہ غرق کر کے رکھ دے گا۔





دوسری جانب:





ایک کامیاب سرمایہ کار یا بزنس مین   بہتر وزیر خزانہ ثابت ہو سکتا ہے کیونکہ ایک کامیاب کاروباری فرد:





  • دلیر ہوگا۔
  • جدت پسند ہوگا۔
  • اس میں سبقت لے جانے کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوگا۔
  • وہ جانتا ہے کہ ادارے کو منافع بخش کیسے بنایا جاتا ہے۔
  • وہ دوسروں کے مقابلے میں اپنی بہتر ٹیم کا انتخاب کرے گا۔
  • اُس کو نوکر شاہی با آسانی اُلو نہیں بنا سکتی۔
  • وہ کامیابی کی راہ  میں حائل خرابیوں کو جڑ سے اکھاڑ سکتا ہے۔
  • وہ اپنی بصیرت کو عملی شکل میں ڈھالنے کی اہلیت رکھتا ہے۔
  • وہ  کام کر گذرنے والا اور کامیابی کا متوالا ہوگا۔
  • وہ  تیزترین  قوت فیصلہ سے لیس ہوگا۔
  • فرش سے عرش پر پہنچنے میں اس  کی اہلیت کا کوئی ثانی نہیں ہوگا۔
  • اُسے اپنے مقاصد اور  منزل مقصود کے حصول سےوالہانہ لگاؤ ہوگا۔




یہاں اُن ٹھگوں، منی لانڈرنگ کرنے والوں، منشیات فروشوں اور قبضہ گروپوں کی پہچان کا مشکل مرحلہ درپیش ہوتا ہے   جنہوں نے بڑی مہارت سے سرمایہ کاروں کابھیس بنا رکھا ہے۔





وزیر خزانہ کے چناؤ میں اس بات کا خیال رکھنا انتہائی ضروری ہے کہ پاکستان میں اُس کی جڑیں کتنی گہری ہیں اور ان  سے اُس کا لگاؤ کس حد تک ہے۔ ایسا شخص جس کا مال و متاع بیرون ملک رکھاہوگا وہ جوش و جذبہ کی غیر موجودگی میں کوئی کمال نہیں دکھا سکے گا۔





تاہم دیار غیر میں مقیم ایسے کاروباری لوگ بھی ہیں جو واپس آکر اپنے وسیع تجربے اوربے مثال مہارت کو بروئے کار لاتے ہوئے پاکستان کی خدمت کرنا چاہتے ہیں۔ ان غیر ممالک میں مقیم پاکستانیوں پر بھی اعتماد کا اظہار کیا جا سکتا ہے۔