احمد جواد





اس کے باؤلنگ ایکشن میں خلل کی وجہ سے ماہرین کا خیال تھا کہ وہ کبھی فاسٹ باؤلر نہیں بن سکتا۔اُس کی باؤلنگ بے ڈھنگی سی تھی۔ مگر وہ ڈٹا رہا اور اپنی محنت شاقہ ، ثابت قدمی ، اللہ تعالیٰ پر یقین اور خود پر اعتماد کے باعث دنیا کے بہترین باؤلروں میں شامل ہوگیا۔





ماہرین نے اُس کے کینسر ہسپتال بنانے کے منصوبے کو نا قابل عمل قرار دیا مگر وہ شوکت خانم کینسر ہسپتال جیسےبین الاقوامی ادارے کے قیام کا کارنامہ سر انجام دےکررہا۔





پاکستان کے دور دراز علاقے میں یونیورسٹی بنانے کے اس کے ارادے کو دیوانے کا خواب سمجھا گیا۔ آج برطانیہ کی بریڈفورڈ یونیورسٹی سے الحاق شدہ اس کی بنائی ہوئی یونیورسٹی کو پاکستان کا قابل احترام تعلیمی ادارہ قرار دیا جاتا ہے۔





جوں ہی اُس نے سیاسی میدان میں قدم رکھا اُس کے اہل خاندان، دوستوں، دانشوروں اور سیاسی پنڈتوں نےحتمی فیصلہ دے دیا کہ وہ کبھی پاکستان کا وزیر اعظم نہیں بن سکتا۔اُسے ڈرانے،اُس کی تذلیل اور بے آبروئی کے لئے کیا کیا اوچھے ہتھکنڈے نہیں آزمائے گئے۔ پہلے الیکشن میں حصہ لینے پر وہ ایک بھی نشست نہیں جیت سکا۔دوسرے انتخابات میں اس کے حصے میں صرف ایک نشست آئی۔ اُس کی جماعت نے تیسرے الیکشن کا بائیکاٹ کیا اور چوتھے انتخابات میں اس کی پارٹی 32نشستیں جیت سکی۔ پانچویں انتخابات جیت کر وہ وزیر اعظم بن گیا۔





وزیر اعظم بننے کے بعد آجکل پھر اُس کے بارے کہا جا رہا ہے کہ اپنی حکومت کے پہلے آٹھ ماہ میں اپنی سمت کا تعین نہیں کر سکا۔ کسی نہ کسی بہانے اس پر بری بھلی تنقید کے نشتر چلائے جا رہے ہیں حالانکہ اس کے ہر منصوبے کے آغاز پر کسی کو اس کی سمت کی درستگی کا اندازہ نہ تھا۔اس کی سمت سست رو مگر بالکل درست ہوتی ہے۔ہم جیسے بزعم خودسیانے اپنی معمولی زندگی کے تناظر میں چیزوں کو دیکھتے ہیں مگر وہ زندگی کے اعلیٰ معیار پر نظر رکھ کر کامیابی حاصل کرتا ہے۔ہم نہ کبھی اس کی بصیرت کا ادراک کر سکے ہیں نہ کبھی کر سکیں گے۔





وہ عقب سے آتا ہے اور دباؤ کی حالت میں بھی اپنی بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ اُس کا سیکھنے اور کام کرنے کا اپنا انداز ہے۔ وہ وسیم اکرم کی مانند پیدائشی ذہین نہیں مگر وہ جینئس لوگوں سے بڑھ کر کارنامے سر انجام دیتا ہے۔





اُس کی حکومت کے پہلے آٹھ ماہ کی کارکردگی پر تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے مگر یاد رہے کہ وہ اپنے نقادوں کا منہ اپنی بہترین کارکردگی سے بند کرانے کا عادی ہے۔میں اس کوشاید درست ثابت نہ کرسکوں مگر میرے اندرشدید احساس موجود ہے کہ وہ یقیناً کامیاب ہوگا۔





یاد رہے کہ اُس کے بارے ماہرین کے اندازے ہمیشہ غلط ثابت ہوئے اور آئندہ بھی ان کے اندازے جھوٹے ثابت ہوں گے۔ مجھےمحسوس ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اُسے بہت بڑا کردار کامیابی سے نبھانے کے لئے چُنا ہے۔ مجھے اعزاز حاصل ہے کہ میں نے اُس کو قریب سے دیکھا ہے۔ میں ماضی میں کرکٹ کے علاوہ ہر میدان میں اس کا پرجوش حامی بن کر قدم بہ قدم اس کے ساتھ رہا ہوں۔ میں اچھا کرکٹر تو نہیں مگر 1992ء کے ورلڈ کپ تک میں بھی کرکٹ کا بڑا شیدائی تھا۔