پاکستان میں شیشہ پینے پر پابندی کیوں؟





احمد جواد





آجکل شیشہ پینا ایک سلگتا موضوع بن چکا ہے حالانکہ شیشے سے اس قدر دھواں نہیں نکلتا جتنی بھاپ اس موضوع سے نکل رہی ہے۔ پچھلے کئی دنوں سے ثانیہ مرزا، وینا ملک اور شعیب ملک سمیت پوری قوم شیشے کو موضوع سخن بنائے ہوئے ہے۔





ایک زمانہ تھا جب شیشے کو حُقہ کہا جاتا تھا اورہماری ساٹھ سے ستر فیصد آبادی بشمول خواتین حقہ پینے کی لت میں مبتلا تھی ۔





پھر مشرق وسطیٰ کے کلچر سے مختلف خوشبوؤں اور کئی قسموں کا فیشنی شیشہ ہمارےریستورانوں میں وارد ہوا۔کچھ عرصہ قبل سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم پر ریستورانوں میں شیشے کے استعمال پر پابندی لگا دی گئی ہے۔





مجھے یاد پڑتا ہے چند سال قبل قیام برطانیہ کے دوران مجھے لیسٹرشائر کے علاقے میں واقع ایک کیفے میں جانے کا اتفاق ہوا۔یہ کیفےسر شام لوگوں سے کھچا کھچ بھر جاتا جن میں غالب تعداد نوجوانو ں کی ہوتی تھی۔یورپ ، امریکہ، سنگاپور ،ملائشیاء اور دنیا کےکئی ممالک میں شیشہ پینے پر کوئی پابندی نہیں۔حالانکہ ان ممالک میں صحت اور سلامتی کے حوالے سے سخت قوانین لاگو ہیں۔ مگر ایک اچھی کاروباری سرگرمی ہونے کی بدولت ان ملکوں میں شیشہ پینے پر کوئی پابندی نہیں۔جبکہ اسلامی ملکوں سمیت دنیا کے کئی ممالک میں ریستورانوں میں شیشہ پینے کی اجازت ہے تو پھر پاکستان میں اس کے استعمال پر پابندی کیوں ہے؟ہم نے اس معاملے میں شیشے کو کیوں نشانے پر رکھا ہوا ہے؟





پاکستان میں کھوتے کاگوشت کھلانے، غیر معیاری منرل واٹر پلانے، مضر صحت گندہ دودھ استعمال کرنے اور غیر معیاری کھانوں کی فراہمی پر کوئی پابندی نہیں تو صحت کے نام پر شیشے پر کیوں پابندی لگائی گئی ہے؟





ہمارے کراچی اور لاہور جیسے آلودہ ترین شہروں میں شیشہ ریستورانوں سے کہیں زیادہ دھواں پایا جاتا ہے۔لیکن صحت کو لاحق خطرات کی آڑ میں شیشے کے استعمال پر پابندی لگا کر ہم قوم کو آلودگی سے تحفظ دے رہے ہیں۔





پوری دنیا میں شیشہ ریستورانوں کو شراب خانوں کا نعم البدل سمجھا جاتا ہے جن کی وجہ سے شراب نوشی کی حوصلہ شکنی ہوتی ہے۔ شیشہ پینے کی حوصلہ افزائی سے سگریٹ نوشی میں بھی کمی آتی ہے۔ دنیا بھر میں شیشہ میل ملاپ کا وہ انداز ہے جس میں شراب کا استعمال نہیں ہوتا۔





شیشہ ایسی انڈسٹری کا روپ دھار چکا ہے جس نے ثقافت اور رہن سہن پر گہرے اثرات مرتب کئےہیں۔اگر کسی برائی پر پابندی لگانا مقصود تھی تو سگریٹ نوشی پر لگائی جاتی جو نسبتاً سستا، آسانی سے دستیاب اور چلتے پھرتے پیا جاتا ہے۔





میری تجویز ہے کہ سیاحت کو فروغ دینے کے لئے شیشے کے استعمال پر سے پابندی اٹھا نی چاہئے۔